Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”پھر کیوں آنٹی کو تنگ کر رہے ہو،وانیہ سے شادی کر لو۔“ معید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا تھا اس کی بات نے طغرل کو چونک کر آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا وہ سیدھا بیٹھتا ہوا بولا۔
”وہاٹ،یہ کیا کہا ہے تم نے پھر سے کہو ذرا۔“
”پھر سے کیوں کہوں تم سن اور سمجھ چکے ہو میری بات کو اچھی طرح۔“ معید سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”ممی سے تمہاری بات ہوئی ہے مگر کب؟“ وہ شدید مجتسس تھا۔
”اس ہفتے میں ان کی کئی کالز آئی ہیں اور ہر بار انہوں نے مجھ سے ریکوئسٹ کی ہے میں تم کو کسی نہ کسی طرح وانیہ سے شادی کیلئے راضی کروں۔“
”مائی گاڈ…!“ وہ سر پکڑ کر رہ گیا۔
”ممی بھی ہاتھ دھو کر پیچھے ہی پڑ گئی ہیں۔“
”مان لو ان کی بات آخر شادی تو تم کو کرنی ہی ہے۔



”یہ تم کہہ رہے ہو،تم جو خود کو پارس کا بہترین دوست،اچھا بھائی کہتے ہو اتنی آسانی سے اس کی جگہ کسی اور کو دلانے پر تیار ہو۔
“ وہ اسے دیکھتے ہوئے استہزائیہ لہجے میں بولا۔
”سنو طغرل! یہ فیصلہ میں تمہارا دوست بن کر نہیں پری کا بھائی بن کر کر رہا ہوں۔ آنٹی اس کو بہو نہیں بنائیں گی یہ فیصلہ وہ کر چکی ہیں اور میں ایسا نہیں چاہوں گا کہ پری سے تم کسی طرح شادی کر لو مگر وہ عزت و وقار اس کو حاصل نہیں ہوگا جو اس رشتے کا حق ہوتا ہے وہ تیسرے درجے کی شہری جیسی کمتر سمجھی جائے محرومیوں بھری زندگی اس نے گزاری ہے۔
“ صاف و کھرے لہجے میں اس نے پری کی حمایت کی تھی۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ممی وہاں رہ کر بھی ایک روایتی عورت ثابت ہوں گی میں نے ان کو یہاں کی عورتوں سے بہت منفرد سمجھا تھا مگر وہ یہاں کی عورتوں سے بھی زیادہ میکہ پرست ہیں۔‘
”انہوں نے اسی دھرتی پر جنم لیا تھا یہاں کی خوشبو ان کے مزاج میں رچی بسی ہے ساری لائف آسٹریلیا میں گزارنے کے باوجود اپنا طرز اور سوچ نہیں تبدیل کر سکی۔
”چلو کہیں باہر چلتے ہیں میرا یہاں دم گھٹ رہا ہے۔“ اس کے ذہن میں اتنی شدید توڑ پھوڑ مچی ہوئی تھی کہ شدید تناؤ کے باعث اس کی پیشانی پر رگیں ابھر آئی تھیں۔
”ممی اس طرح سے پارس کے خلاف بلا لحاظ بولنا شروع کر دیں گی۔ یہ مجھے احساس نہیں ہوا تھا پارس نے کیا برا کیا ہے ان کے ساتھ؟“ وہ آفس سے باہر نکل آئے تھے۔
”یہ خیالات پارس کے خلاف صرف تمہاری ممی کے ہی نہیں ہیں بلکہ ہماری فیملی کی ساری ”ممز“ ایسے ہی خیالات کی مالک ہیں وہ کوئی بھی پری کو بہو بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں۔
“ دن ڈھلنے کو تھا دھوپ زمین سے اٹھ کر درختوں پر چڑھ رہی تھی موسم میں خنکی تھی اور ماحول میں عجیب سی اداسی پھیلی ہوئی تھی۔
”ہوں… آئی نو وہ سمجھتی ہیں پارس بھی مثنیٰ آنٹی کی طرح گھر نہیں بسا پائے گی۔ طلاق لے کر چلی جائے گی یا ان سب کے دلوں میں اس کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے وہ ان کیلئے کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔“ طغرل نے کڑوی سچائی بیان کی تھی جس سے وہ بھی متفق تھا۔
”ایسا کرنے میں سب سے زیادہ کردار صباحت ممانی کا ہے انہوں نے سوتیلی ماں ہونے کا حق پوری طرح ادا کیا ہے اور صباحت ممانی تو سوتیلی ماں ہیں اس کے ساتھ فیاض ماموں نے بھی زیادہ برا رویہ اختیار کیا وہ اس کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ مثنیٰ آنٹی سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ ان کے اس رویے نے ہی آنٹی کو زیادہ اپنی من مانی کرنے کا موقع دیا اگر نانی جان پری کے ساتھ نہیں ہوتیں تو بہت برا حال ہوتا اس کا اس گھر میں۔
”اب تم اس ہری مرچ کی اتنی بھی سائیڈ مت لو وہ اتنی کمزور اور نادان نہیں ہے اپنا ڈیفنس کرنا وہ خوب جانتی ہے اور فیاض چچا کے دل میں بھی اس کی محبت بے دار ہو چکی ہے وہ سائیڈ لینے لگے ہیں اس کی۔“ اس کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”یہی کہہ سکتا ہوں،دیر آید درست آید دیر سے ہی سہی ماموں جان کو اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی توفیق تو ملی۔
”چچا جان کو تو مل گئی ہے تم اپنی اس بد دماغ و بے عقل سسٹر کیلئے بھی دعا کرو،وہ بھی اپنی دماغ کی برسوں سے بند پڑی کھڑکی کھولے فریش ہوا آنے دے اور وہ اپنے بارے میں فیصلہ کے۔“
”عجیب ہو یار تم بھی،ابھی کچھ دیر قبل پری کے خلاف بول رہے تھے پھر تم کو اس کی فکر ستانے لگی ہے۔“ اس کو ہنستے دیکھ کر وہ جھینپ گیا۔
###
ماہ رخ کی بے ہوشی طویل ہوئی تو غفران کو مطلع کیا گیا اور اس نے کچھ ہی دیر میں وہاں کے بہترین ڈاکٹروں کو بلایا جن کی دواؤں سے وہ ہوش میں آ گئی تھی اور اس کو ہوش میں دیکھ کر ڈاکٹرز اور ملازمائیں وہاں سے چلی گئی تھیں۔
اب اس کے سرہانے پر غفران احمر بیٹھا تھا۔
”کیا ہوا تھا میری ملکہ ذاکرہ بتا رہی تھی تم اچانک ہی قہوہ پیتے ہوئے بے ہوش ہو گئی تھیں۔ ہم نے قہوہ ٹیسٹ کروایا ہے مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو بے ہوشی کا سبب بنتی۔“ وہ اس کا مرمریں ہاتھ اپنے سیاہ و بھدے ہاتھوں میں لے کر گویا ہوا۔
”معلوم نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے۔ میں شرمندہ ہوں آپ کو زحمت ہوئی۔
پریشان کیا آپ کو۔“ وہ نگاہیں جھکائے جھکائے گویا ہوئی۔
”کیسی غیروں کی مانند بات کرتی ہو ماہ رخ۔“ وہ محبت پاش نظروں سے اس کو دیکھتاہوا بولا۔
”میں تم کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ تم میرے دل کی رانی ہو،بہت گہرا عشق ہو گیا ہے تم سے دل میں ایسا لگاؤ کسی کیلئے بھی کبھی جاگا نہ تھا جو تم سے محبت مجھے ہو گئی ہے۔“ وہ اس کے تکیوں پر بکھرے بالوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہوا کہہ رہا تھا۔
دروازے کے پیچھے ہی پردے کی اوٹ میں چھپی کھڑی دلربا نہ صرف ان کو دیکھ رہی تھی بلکہ ان کی باتوں پر بھی اس کے کان لگے ہوئے تھے۔ غفران احمر کی ہر حرکت ہر محبت بھرے جملوں پر اس کے سینے پر حسد کے سانپ لوٹ رہے تھے۔ وہ سانسیں روکے انہیں دیکھنے و سننے میں مصروف تھی اور اس کی موجودگی سے بے خبر وہ کہہ رہا تھا۔
”دیکھو لو تمہاری محبت میں ایک ہی دن میں ہم محل واپس آ گئے ہیں۔
دل کو عجیب سی بے چینی لگی ہوئی تھی اور یہاں آ کر وہ راز ہم پر کھلا جس نے بے چین کرکے ہم کو یہاں واپس آنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”راز… کیسا راز؟“ وہ بری طرح چونک اٹھی تھی۔
”ہم یہاں آئے تو اس بدذات حاجرہ کو مزے سے لان میں بیٹھے دیکھا۔ ہم اس کو سختی سے تاکید کر گئے تھے کہ وہ آپ کو بالکل تنہا نہ چھوڑے ہم نے بھی اس کو وہ مار دی ہے کہ… مر ہی جائے گی وہ۔
“ وہ اٹھتے ہوئے حقارت آمیز لہجے میں بولا اس کو کھڑے ہوتے دیکھ کر وہ دبے پاؤں وہاں سے نکل کر باہر آ گئی اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔
”معاف کر دیں حاجرہ کو غلطی ہو گئی اس سے۔“ وہ دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے ہوئے غفران احمر سے لاڈ بھرے لہجے میں گویا تھی۔
”اس کو میں نے ہی باہر بھیجا تھا۔ میں تنہا رہنا چاہتی تھی کچھ دیر۔
“ وہ بات بناتے ہوئے گویا ہوئی جبکہ وہ حیرانی سے بولا۔
”کیوں تنہا رہنا چاہتی تھیں؟“
”آپ کو مس کر رہی تھی میں ایسے میں مجھے اس کی موجودگی گوارا نہ تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی یادوں میں میرے اور آپ کے درمیان کوئی مخل ہو۔“
”اوہ… اچھا یہ بات تھی تم میری یادوں سے تنہائی میں مخاطب تھیں۔“ غفران احمر جیسا بھاری بھر کم شخص خوشی سے اچھل پڑا تھا۔
”جی…“ ماہ رخ نے شرمانے کی بھرپور اداکاری کی تھی۔
”دل خوش ہو گیا اتنی محبت بھری بات سن کر میرا۔“
”اب اس خوشی کے صدقے میں میری ایک بات مانیں گے آپ؟“ اس کو ازحد مسرور و شاداں دیکھ کر وہ لگاوٹ بھرے لہجے میں بولی۔
”ہاں ہاں کہو،تم کو مجھ سے کسی بات کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہاری محبت کے صدقے میں ہر بات ماننے کو تیار ہوں۔
###
”اوہ تم… کیوں آئی ہو؟“ شیری باتھ روم سے باتھ گاؤن میں برآمد ہوا تھا صوفے پر بڑے اطمینان سے عادلہ کو براجمان دیکھ کر اکھڑ پن سے گویا ہوا۔
”تھینکس گاڈ… تم نے یہ نہیں کہا کہ میں کون ہوں اور کس طرح تمہارے لاکڈ بیڈ روم میں آ کر بیٹھ گئی ہوں۔“ عادلہ نے طنزیہ لہجے میں اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”یاد ہے مجھے میرے بیڈ روم کی ایک چابی تمہارے پاس ہے اور اس کو ہی یوز کرکے تم یہاں بیٹھی ہو،ان فیکٹ میں تم کو یہاں دیکھنا نہیں چاہتا گیٹ آؤٹ فرام ہیئر۔
“ وہ ڈریسنگ ٹیبل سے ہیئر ڈرائیر کرتا ہوا رکھائی سے گویا ہوا اس کے لہجے میں بے حد بے زاری و رعونت تھی۔
”وہ وقت گزر گیا شیری،جب میں تمہارے بیڈ روم سے آسانی سے چلی جاتی اور کبھی پلٹ کر بھی نہ آتی مگر اب تمہارے ساتھ گزارے وقت کے کچھ لمحے میرے وجود میں ٹھہر گئے ہیں۔“ وہ اس کے قریب آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لفظ جما جما کر کہہ رہی تھی اس کے انداز میں کچھ اصرا رتھا کہ اس کے ہاتھ ساکت رہ گئے۔
”کیا بکواس کر رہی ہو تم… کیا مقصد ہے تمہارا؟“ وہ ڈرائیر مشین ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے غرایا۔
”تم باپ بننے والے ہو…“ باقی لفظ اس کے منہ میں رہ گئے تھے۔ شیری کے دیئے گئے زور دار دھکے سے وہ دور جا گری تھی۔
”کسی دوسرے کے گناہ کا الزام میرے سر ڈالنا چاہتی ہو بے حیاء لڑکی۔“ وہ غصے سے پاگل ہو گیا تھا جنونی انداز میں اس نے بے اوسان ہو کر گرنے والی عادلہ ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
”گیٹ لاسٹ،تم جیسی لڑکیوں سے نبٹنا میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ پہلے اداؤں کے جال میں مردوں کو پھنساتی ہو اور پھر اس طرح بلیک میل کرکے الو بنانے کی پلاننگ کرتی ہو۔“ وہ اس وقت جنونی بنا ہوا تھا عادلہ اس کی گرفت میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ وہ تو گھر سے نکلتے وقت بہت ہمت و حوصلے سے آئی تھی کہ کس طرح وہ اس کو اپنے دام میں کرے گی وہ اس کی بات پر شرمندہ ہو جائے گا شادی کیلئے راضی ہو جائے گا اور وہ…
کیا وہ شخص ہے جو سارا سارن دن اس کے ساتھ گزارتا تھا۔
ہزار بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اظہار و اعتراف کرتا تھا۔ اپنی محبت و وفا کا یقین دلاتا تھا ان آنکھوں میں اب وہ شناسائی گم تھی کس طرح بے رحمی سے وہ اس پر الزام لگا رہا تھا۔
”میں تم کو جان سے مار دوں گا تم نے سمجھا کیا ہے مجھے؟“
”مار دو جان سے لیکن یاد رکھنا زندہ میں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گی۔ تم نے میری زندگی برباد کی ہے میں تم کو بھی برباد کرکے چھوڑوں گی۔
“ ایک دم ہی اس کے اندر طاقت سی ابھری تھی اور وہ زخمی شیرنی کی مانند غرائی۔ وہ کئی لمحوں اس کا خونخوار انداز دیکھتا رہا پھر یکلخت ہی اس کے مزاج میں ٹھنڈک اتر آئی عادلہ کو صوفے پر بیٹھا کر اس کے قریب بیٹھتا ہوا گویا ہوا۔
”عادلہ،تم کو احساس ہے کیا کہہ رہی ہو۔“ اس کے لہجے کی نرمی و لجاجت نے عادلہ کے دل کو گداز کر دیا وہ کچھ نہیں بولی ہونٹ دانتوں سے کچلتے ہوئے بے آواز آنسو بہانے لگے۔
”رونے سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں تم مجھے بتاؤ آریو پریگنیٹ؟“
”جی… یہ سچ ہے اور میں اس نوعیت کا جھوٹ بول بھی کس طرح سکتی ہوں۔ میں عزت دار خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اگر گھر میں پاپا دادی کو خبر بھی ہو گئی تو میرا نجانے کیا ہوگا۔“
”یہ تم کو پہلے خیال کرنا چاہئے تھا کہ تم کیا کرنے جا رہی ہو؟“ اس کے نرم لہجے میں بھی عجیب سی سرد مہری تھی۔
”تم نے بہکایا ہے مجھے اب خود کو انجان ثابت کرنے کی سعی مت کرو۔“
”میں نے بہکایا اور تم بہک گئیں… ہا ہا ہا… یہ کیوں نہیں کہتی ہو تم کسی نہ کسی طرح مجھے حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ ہر قیمت پر لیکن تم مجھ کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکوں گی تم میری منزل نہیں ہو۔“ اس کے انداز میں سفاکی عود کر آئی تھی۔
”کون ہے تمہاری منزل،تم جیسے ہرجائی و عیاش مرد کی کوئی منزل نہیں ہوتی ہے تم بھنورے ہو تمہاری فطرت پھول در پھول منڈلاتے رہنا ہے کسی آوارہ بادل کی طرح بھٹکتے رہنا ہے۔
“ عادلہ کی آواز آنسوؤں سے بھاری ہو رہی تھی۔
”اینی وے،ممی گھر آنے والی ہوں گی تم یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔“ وہ وال کلاک دیکھتا ہوا حکمیہ لہجے میں بولا۔
”پہل فیصلہ کرو،تم مجھ سے شادی کرو گے… یا نہیں… میں تمہاری ساری حقیقت پری کو بتا دوں گی ورنہ…!“

   1
0 Comments